تمہاری راحتوں کے ساغر میں
تمھارے عبارتی رابطوں میں لاغر ہوں
تمھارے ہونٹوں کی گلابی، رسیلی سی لمس
لبوں کی انابی رعنائیاں
رنگیلی عادتیں
جو سننے والے کو دیکھنے پر مجبور کر دے
دیکھنے والے کو سن کر دے
نظروں کو آنکھوں سے گم کر دے
تمہارا بکھرتے ہوئے مسکرانا
مسکراتے ہوئے بکھرنا
شرمائے بنا شرمانا
اترائے بنا لجھانا،
پھر ان نظروں کا ان نظروں سے ٹکرانا
ٹکرا کر ٹہر جانا
ٹہرے ٹہرے لرز جانا
لرزتے لرزتے لڑکھڑانہ
لڑکھڑا کر اپنے ہی اندر گر جانا
ہاۓ وہ نظریں، وہ ظالم ادائیں
میری امانتیں
میں جانتا ہوں میری دل ربائی
تمہاری رسوائی
مگر پھر بھی
ان نازنین نگاہوں کو
ہمیشہ اٹھائے رکھنا میرے لیے
اپنی پیاس کو پیاسی رکھنا میرے لیے
دلدار نظروں سے
اپنے دل کی حسرتوں کو
ہمیشہ بچھائے رہنا میرے لیے
ہاۓ!
وہ تمہارا مخملی جسم
وہ تمہارا طلسمی حسن
جیسے کوئی، کوہ کاف کی کہانی
نایاب جوانی،
مخملی طلسم
طلسمی مخمل
مجھے محو کئے ہوئے ہیں
میں ان کے سحر میں اسیر ہوں
ان کے بحر سے بصیر ہوں
تمہاری ہر ایک کہی اور ان کہی بات
بن میرے جو گزری ، ہر وہ مدارات
میرے خیالوں کو مخمل کر گئی
میرے جذباتوں کو ازل کر گئی
تمہاری چھوٹی چھوٹی باتیں میرے اندر بن موسم
حسین برسات کر رہی ہیں
جھل مل بارات کر رہی ہیں
تمہارے لاڈ سے میرے من میں
آفتاب و مہتاب جگمگا رہے ہیں
تمہارے احساس سے میرے تن میں
ستارے جھلملا رہے ہیں
میں ہجوم تنہائی میں
رسوم خدائی سے
آج کل، شب و روز
گلابی گالوں ،
شربتی شاموں
مستانی بانہوں
اور عنابی لبوں
کی شرابور مستی میں مست ہوں
تم نہ جانے کہاں ہو
طلسمی مخمل کی طرح
نظروں سے آر پار ہو
کسی کانچ کی مانند
کسی آئینے کی طرح
محض ایک خوابی جذبات ہو
ان تمام خیالوں سے میرے اندر
ایک دیوانگی دوڑ رہی ہے
لہریں سمندر
ہوائیں طوفان بن رہے ہیں
سرمئی صحرا ، رنگین میدان بن رہے ہیں
مگر میرے ہونٹ ہمیشہ کی طرح
خشک ہیں ،
سوکھہ رہے ہیں
میرا جسم سرد مہری کا شکار ہے
میرے ہونٹوں کو میرے خیالوں کی طرح گلابی کر دو
میرے جسم کو اپنی حدّت دے دو
ورنہ میں یہاں سرد مجسّم ہو جاؤنگا
اور تم وہاں اپنی ہی حددتوں سے
موم کی طرح جم جاؤگی
تم میرا بس ایک کام کردو
ہمیشہ کے لیے مجھے انجام کر دو
تم اپنے ہونٹوں پہ اپنی زبان پھیرتی رہنا
ان کو تم تر رکھنا
مجھے تمہارا
اور تمھیں میرا احساس رہے گا
تم جب بھی اپنی زبان اپنے ہونٹوں پہ پھیرو
تو مجھے یاد کر کے سوچ لینا
اور میں تو ویسے ہی تمہیں سوچتا رہتا ہوں
مگر اس طرح میں تمہاری حددتیں محسوس کرتا رہونگا
پھر میں اور تم
نہ سرد مہری، نہ گرم جوشی سے
کبھی بھی جم سکیں گے
کیوں کے اگر ہم کبھی جم گئے
تو تمام راحتیں، ساعتیں اور رعنائیاں
اس جہاں کی ،
اور اس جہاں سے
فنا ہو جائیں گی
تو بہتر یہی ہے کے
ہم اپنے لیے
سب کے لیے
اور آنے والے وقت کی خاطر
ان ہونٹوں کو تر رکھیں
راحتیں بکھیرتے رہیں
چاہتیں سمیٹتے رہیں
تم اور میں بنا مجسسم ہوئے
بس ایک طلسم مخملی خیال کی طرح
امر ہو جائیں ........